Admin Admin
Posts : 52 Points : 53601 Join date : 2009-08-15 Age : 37 Location : UAE
| Subject: -- ~~ یہ تھے ہمارے حکمران ~~- Mon Aug 25, 2014 2:38 am | |
| یہ تھے ہمارے حکمران امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ شدید سرد اور تاریک رات میں ایک جگہ آگ کی روشنی دیکھی، چنانچہ وہاں تشریف لے گئے۔ ساتھ جلیل القدر صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوفt بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آگ کے پاس ایک عورت کو دیکھا جس کے تین بچے زار و قطار رو رہے تھے۔ ایک بچہ کہہ رہا تھا: ’’امی جان! ان آنسوئوں پر رحم کھائو اور کچھ کھانے کو دو۔‘‘ دوسرا بچہ یہ کہہ کر رو رہا تھا: ’’امی جان! لگتا ہے شدت بھوک سے جان چلی جائے گی۔‘‘ تیسرا بچہ کہہ رہا تھا: ’’امی جان! کیا موت کی آغوش میں جانے سے پہلے مجھے کچھ کھانے کو نہیں مل سکتا؟‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آگ کے پاس بیٹھ گئے اور اس عورت سے پوچھا: ’’اے اللہ کی بندی! تیرے اس حال کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ عورت نے جواب دیا: ’’اللہ! اللہ! میری اس حالت کا ذمہ دار امیر المومنین عمر ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: ’’کوئی ہے جس نے عمر کو تمہارے حال سے آگاہ کیا ہو؟‘‘ عورت نے جواب دیا: ’’ہمارا حکمران ہو کر وہ ہم سے غافل رہے گا؟ یہ کیسا حکمران ہے جس کو اپنی رعایا کی کچھ خبر نہیں؟‘‘ یہ جواب سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (راتوں رات) مسلمانوں کے بیت المال گئے اور دروازہ کھولا۔ بیت المال کا محافظ بولا: ’’امیر المومنین!اس وقت خیر تو ہے ؟‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور آٹے کی ایک بوری، گھی اور شہد کا ایک ڈبہ بیت المال سے نکالا اور چوکیدار سے کہنے لگے: ’’یہ چیزیں میری پیٹھ پر لاد دو۔‘‘ محافظ نے عرض کی: ’’امیر المومنین! آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ حضرت عمرt نے فرمایا: ’’میری پیٹھ پر لاد دو۔‘‘ محافظ نے عرض کیا: ’’اے امیر المومنین! براہِ کرم آپ یہ چیزیں اپنی پیٹھ پر نہ لادیں۔‘‘ حضرت عمرt نے پھر سے کہا: ’’میری پیٹھ پر لاد دو۔‘‘ محافظ نے کوشش کی کہ امیر المومنین کا مطلوبہ سامان خود اپنی پیٹھ پر لاد لے لیکن امیر المومنین نے سختی سے انکار کیا اور اس سے یوں مخاطب ہوئے: ’’یہ سامان میری پیٹھ پر لاد دو، کیا قیامت کے روز میرے گناہوں کا بوجھ تم اٹھائو گے؟‘‘ یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آٹا، گھی اور شہد اپنی پیٹھ پر لاد لیا اور چل دیے۔ جب اس عورت کے ہاں پہنچے تو آگ کے پاس بیٹھ گئے اور ان بچوں کے لیے کھانا خود پکایا۔ جب کھانا تیار ہو گیا تو اس میں گھی اور شہد کی آمیزش کی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے بچوں کو کھانا کھلایا۔ یہ منظر دیکھ کر ان یتیم بچوں کی ماں کہنے لگی: ’’قسم اللہ کی! تم عمر سے کہیں زیادہ منصبِ خلافت کے اہل ہو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: ’’اے اللہ کی بندی! کل عمر کے پاس جانا، وہاں میں ہوں گا اور تمہارے معاملات کے متعلق اس سے سفارش کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ واپس آگئے اور ایک چٹان کے پیچھے آکر بیٹھے رہے اور ان بچوں کو دیکھنے لگے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’آئیے امیرالمومنین، اَب واپس چلتے ہیں، کیونکہ رات بہت ہی ٹھنڈی ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اپنی جگہ اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک ان بچوں کو ہنستا ہوا نہ دیکھ لوں، جیسے میں نے انہیں آتے وقت روتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘ جب اگلے روز کا سورج طلوع ہوا تو ان یتیم بچوں کی ماں دربار خلافت میں گئی۔ وہاں س نے دیکھا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مابین ایک شخص تشریف فرما ہے اور وہ دونوں حضرات اسے امیرالمومنین کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں اور یہ وہی شخص تھا جس نے گزشتہ رات اس عورت اور س کے بچوں کی خدمت میں گزاری تھی اور جس سے اس نے کہا تھا: ’’اللہ اللہ! میری اس حالت کا ذمہ دار عمر ہے۔‘‘ چنانچہ جب عورت کی نگاہ حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر پڑی تو گویا اس کے پائوں تلے سے زمین کھسک گئی۔ امیرالمومنین نے عورت سے فرمایا: ’’اللہ کی بندی! تیرا کوئی قصور نہیں، چل بتا تو اپنی شکایت کتنی قیمت کے عوض فروخت کرے گی۔‘‘ عورت گویا ہوئی: ’’معاف فرمائیے اے امیرالمومنین!‘‘ حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قسم اللہ کی! تو اس جگہ سے ہٹ نہیں سکتی جب تک کہ میرے ہاتھ اپنی شکایت بیچ نہ دو۔‘‘ بالآخر حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس بیوہ خاتون کی شکایت اپنے مال خاص سے چھ سو درہم کے عوض خرید لی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کاغذ قلم لانے کا حکم دیا اور یہ تحریر قلمبند کرائی: ’’ہم علی اور ابن مسعود اس بات پر گواہ ہیں کہ فلاں عورت نے اپنی شکایت امیرالمومنین عمر بن خطاب کے ہاتھ فروخت کر دی۔‘‘ پھر امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جب میری وفات ہو جائے تو اسے میرے کفن میں رکھ دینا تاکہ میں اس کو لے کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں۔‘‘ | |
|